A Short Bio About Chichawatni City
ساہیوال سے تقریباً 40 کلومیٹر ملتان روڈ پر چیچہ وطنی شہر آباد ہے۔
تاریخ:چیچہ وطنی کے بارے میں دو روایات مشہور ہیں کہ ساتویں صدی میں راجا داہر نے اپنے والد مہا راجا
’چچ‘ کے نام سے چیچہ وطنی رکھا جبکہ دوسری روایت میں ہے کہ اس علاقے میں
ایک ہندو خاندان آباد تھا مرد کا نام ’چیچہ‘ اور اس کی بیوی کا نام ’وطنی‘
تھا جس سے شہر کا نام چیچہ وطنی رکھا گیا۔چیچہ وطنی شہر بیسویں صدی کے آغاز
میں آباد ہوا اور آج ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ نفوس پر مشتمل ہے۔ چھانگا مانگا
جنگل کے بعد ملک کا دوسرے بڑا جنگل، کاسمیٹکس انڈسٹری اور ملک کی بڑی منڈی
مویشیاں کے حوالے سے چیچہ وطنی الگ اور منفرد پہچان رکھتا ہے۔حدود
اربعہ:ساہیوال سے مغرب کی جانب ملتان روڈ پر ساہیوال کی دوسری بڑی تحصیل
چیچہ وطنی واقع ہے۔ چیچہ وطنی کے شمال میں دریائے راوی اور جنوب کی جانب
بورے والا شہر آباد ہے۔آبادی:1998ء کی مردم شماری کے مطابق تحصیل چیچہ وطنی کی آبادی سات لاکھ 85 ہزار تین سو 57، شہری حدود میں آباد افراد کی تعداد 72 ہزار سات سو 21 تھی۔حالیہ ہونے والے انتخابات میں شہری حلقے کو 22 وارڈز اور دیہی علاقوں کو 42 یونین کونسلز میں تقسیم کیا گیا ہے۔برادریاں:چیچہ وطنی میں جٹ، راجپوت، رحمانی، شیخ، ملک، آرائیں، چوہان اور غفاری برادری کی اکثریت موجود ہے۔تعلیمی ادارے:چیچہ وطنی میں گورنمنٹ بوائز ڈگری کالج 1967ء میں قائم ہوا اس کے علاوہ لڑکوں کی تعلیم کے لیے تین ہائی، دو مڈل اور متعدد پرائمری سرکاری سکولز موجود ہیں۔ ان میں گورنمنٹ ایم سی ماڈل ہائی سکول 1914ء میں قائم ہوا جو ایک صدی پر محیط اپنی شاندار تاریخ رکھتا ہے۔
طالبات کے لیے گورنمنٹ کریسنٹ گرلز کالج 1971ء میں قائم ہوا جسے سال 1976ء میں قومی تحویل میں لے لیا گیا اور 1983ء میں گرلز کالج کو ڈگری کالج کا درجہ دے دیا گیا۔ اسکے علاوہ ایک ہائر سیکنڈری، چار ہائی، تین مڈل اور چند پرائمری سرکاری سکولز طالبات کے فروغ تعلیم کے لیے کوشاں ہیں۔
شہری علاقہ:1901ء میں چیچہ وطنی کے ارتقائی پس منظر کے حوالے سے سابق صدر پریس کلب اور ماہر تعلیم ایس اے ساجد بتاتے ہیں کہ جب نئے شہر کی بنیاد رکھی گئی تو ابتدائی تعمیر میں شہر کو بلاکوں میں تقسیم کیا گیا۔ شروع میں بلاک نمبر چار، چھ، سات، آٹھ اور 12 آباد ہوئے۔ اس وقت شہر میں ہندوؤں کی اکثریت تھی۔انہوں نے بتایا کہ ہندوؤں کے لیے بلاک نمبر دو میں مندر جو تقسیم کے بعد ہندوؤں کی نقل مکانی کی وجہ سے عبادت گاہ کا درجہ کھو گیا تھا۔ 1992ء میں بابری مسجد کے سانحہ کے بعد منہدم کر دیا گیا۔’بلاک نمبر تین میں سکھوں کے لیے گوردوارہ موجود تھا جسے تقسیم کے بعد ایم سی گرلز پرائمری سکول میں تبدیل کر دیا گیا۔ مسلمانوں کے لیے بلاک نمبر 12 میں جامع مسجد تعمیر کی گئی تھی جو اب بھی موجود ہے۔‘’ابتداء میں شمالا جنوباً اور شرقاً غرباً دو کشادہ بازار بنائے گئے جن کے کراسنگ چوک میں ایک بڑا سا کنواں موجود تھا جہاں سے لوگ پانی بھرتے تھے۔ اب اس جگہ کو چوک شہدائے ختم نبوت المعروف فوارہ چوک کہا جاتا ہے۔‘ساجد بتاتے ہیں کہ دسہرہ کا تہوار بلاک نمبر تین کے مغرب میں ایک وسیع میدان میں منایا جاتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی شمشان گھاٹ تھا جہاں ہندو چتائیں جلایا کرتے تھے۔
شہر کے مشہور بازاروں میں ڈاکخانہ بازار، مین بازار، صدر بازار، نیا بازار اور جامع مسجد بازار ہیں۔’اوکانوالہ روڈ کے دونوں جانب شیشم کے درختوں کی شاخیں اسطرح جڑی ہوتی تھیں کہ سڑک پر سبزے کا گمان ہوتا تھا۔ شہر میں واقع جناح چوک کو اب ترنگا چوک کہا جاتا ہے۔ یہاں جمیل ترنگا نامی شخص جانوروں کی کھالوں کا کاروبار کرتے تھے۔ ان کے نام کی مناسبت سے یہ چوک ترنگا چوک کے نام سے مشہور ہو گیا۔‘شاعر و گلوکار:چیچہ وطنی کے مشہور شاعروں میں عباس نجمی، ادریس قمر، کرم الہی عامل اور مظہر ترمذی شامل ہیں اور مشہور گلوکار مہدی حسن کا تعلق بھی چیچہ وطنی سے تھا۔جنگل:ریاض ابن عامل ریٹائرڈ ٹیچر ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ریلوے سٹیم انجن چلانے کے لیے جنگل اگایا گیا تھا۔ جنگل کی شجر کاری کا آغاز جنگ عظیم اول کے قیدیوں نے انجام دیا تھا۔ جس جگہ آج مہتمم جنگلات کا دفتر موجود ہے اس جگہ قیدیوں کے لیے بیرک تعمیر کی گئی تھی۔
دوسری بیرک کوٹلہ ادیب شہید میں بنائی گئی، جسے اس وقت ’کوٹلہ جندہ رام‘ کہا جاتا تھا۔ اس وقت جنگل میں شیشم کے درختوں کی بہتات تھی جسکی جگہ اب سفیدہ اور سنبل کے درختوں نے لے لی ہے۔‘ریلوے اسٹیشن:چیچہ وطنی کا ریلوے اسٹیشن 1918ء میں قائم ہوا۔ سال 1927ء میں اسٹیشن کی توسیع کی گئی اس کے بعد سال 2007ء میں اسٹیشن کی عمارت نئی بنائی گئی۔
منڈی مویشیاں:حاجی شریف بزرگ شہری ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کا خاندان تقسیم کے بعد 1950ء میں گئو شالہ آ کر آباد ہوا تھا۔گئو شالہ شہر کا گنجان آباد اور قدیم محلہ ہے جسے اب محمد آباد کہا جاتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ شہر کی مشہور منڈی مویشیاں تقسیم سے قبل موجودہ گورنمنٹ ڈگری کالج والی جگہ پر ہر ماہ 20 سے 24 تاریخ کو منعقد ہوتی تھی۔ منڈی مویشیاں اب بھی پرانی روایت کے مطابق ہی منعقد ہوتی ہے تاہم 1967ء میں منڈی مویشیاں گئو شالہ کے ساتھ منتقل ہو گئی۔
سیاست:انعام الحق ایم فل سکالر ہیں وہ بتاتے ہیں کہ 1970ء کے پہلے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے رانا محمد حنیف قومی اسمبلی کے ممبر بنے اور وفاقی وزیر خزانہ بھی رہے۔’ان سے قبل اس شہر نے مادر ملت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے انہیں زبردست پذیرائی بخشی لیکن جنرل ایوب کی 11 سالہ آمریت نے محترمہ فاطمہ جناح کو ایوان اقتدار سے دور رکھ کر ملک کو جو زخم دیئے وہ تاریخ کا حصہ ہیں۔‘وہ بتاتے ہیں کہ جنرل ضیاء کے دور میں بھی پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے پارٹی کا پرچم تھامے رکھا۔ سال 1988 اور 1990ء میں رائے احمد نواز خاں اور رائے حسن نواز خاں بالترتیب قومی اور صوبائی اسمبلی کے لیے منتخب ہوئے۔1993ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے بیگم شہناز جاوید ایم این اے اور چودھری منیر ازہر صوبائی اسمبلی کے ممبر بنے۔چیچہ وطنی حلقہ پی پی 224 سے وحید اصغر ڈوگر پاکستان تحریک انصاف کے ایم پی اے، حلقہ 225 سے چوہدری محمد ارشد اور حلقہ 226 سے چوہدری محمد حنیف پاکستان مسلم لیگ ن کے موجودہ ایم پی اے جبکہ حلقہ این اے 163 سے مسلم لیگ ن کے چوہدری منیر ازہر اور این اے 162 سے چودھری طفیل جٹ موجودہ ایم این اے ہیں۔ میراسوہناشہر چیچہ وطنی.......
Comments
Post a Comment